"وطن کا سایہ، فریب کی گلیاں
شجر وطن کا سایہ نہ چھوڑ اے مسافر یہی تری پناہ ہے، یہی ترا مقدر سیاست کی گلیوں میں بھٹک نہ جا کہیں یہ راہیں ہیں فریب کی، ہیں خالی بے ثمر یہ جو چراغ جلتے ہیں، یہ نور کے نہیں یہ وہ ہیں جو جلاتے ہیں، وطن کی ہر کمر جو قوم کے محافظ تھے، وہی ہیں رہزنوں میں لگا کے ہاتھ ملتے ہیں، چراغوں کو دھر اندر جو تیرے پاس رہزن ہیں، وہ تیرا حق نہ دیں گے اٹھا لے اپنی تقدیر، بنا خود ہی جگر اگر خدا پہ ہے تیرا یقین مضبوط تو سن یہی ہے راہ اسلام، یہی ہے راہ بہتر نہ پیچھے چل سیاست کے اندھیروں میں کبھی وطن کا ساتھ دے، یہی ہے تیرے دل کا جوہر۔ محمد فرحان خان