Skip to main content

Featured

"وطن کا سایہ، فریب کی گلیاں

 شجر وطن کا سایہ نہ چھوڑ اے مسافر یہی تری پناہ ہے، یہی ترا مقدر سیاست کی گلیوں میں بھٹک نہ جا کہیں یہ راہیں ہیں فریب کی، ہیں خالی بے ثمر یہ جو چراغ جلتے ہیں، یہ نور کے نہیں یہ وہ ہیں جو جلاتے ہیں، وطن کی ہر کمر جو قوم کے محافظ تھے، وہی ہیں رہزنوں میں لگا کے ہاتھ ملتے ہیں، چراغوں کو دھر اندر جو تیرے پاس رہزن ہیں، وہ تیرا حق نہ دیں گے اٹھا لے اپنی تقدیر، بنا خود ہی جگر اگر خدا پہ ہے تیرا یقین مضبوط تو سن یہی ہے راہ اسلام، یہی ہے راہ بہتر نہ پیچھے چل سیاست کے اندھیروں میں کبھی وطن کا ساتھ دے، یہی ہے تیرے دل کا جوہر۔                                     محمد فرحان خان

Sudan Vs Al Qaeda in Urdu Published by Public Opinion

 1990 کی دہائی کے اوائل میں، سوڈان اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بن گیا، اور خود کو مغربی تسلط کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کا اہم حامی ثابت کیا۔ سوڈان نے عسکریت پسندوں کے لیے لاجسٹک مدد، تربیتی کیمپ اور محفوظ گزرگاہ فراہم کی، جس سے القاعدہ کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف مزاحمت کی ایک مضبوط قوت بننے میں مدد ملی۔ اس دور میں بن لادن کی سوڈان میں موجودگی نے دیگر اسلامی تحریکوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا، اور بہت سے لوگ سوڈان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھتے تھے جو غیر ملکی مداخلت کے خلاف جرات سے کھڑا تھا۔


تاہم، 1990 کی دہائی کے وسط تک، سوڈان کو امریکہ اور بین الاقوامی طاقتوں کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرنے کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ 1996 میں، شدید سفارتی اور اقتصادی دباؤ کے تحت، سوڈان نے اسامہ بن لادن کو ملک سے نکال دیا۔ مسلم دنیا میں اسے اکثر مغرب، خاص طور پر امریکہ، کے سامنے جھکنے کے طور پر دیکھا گیا، جو القاعدہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ سوڈانی حکومت، پابندیوں اور عالمی تنہائی سے بچنے کی امید میں، بین الاقوامی انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں تعاون کرنے لگی، جس میں 9/11 کے بعد امریکہ کو انٹیلی جنس فراہم کرنا بھی شامل تھا۔


2000 کی دہائی کے دوران، سوڈان نے عسکریت پسند گروپوں سے خود کو مزید دور کر لیا اور خطے میں مغربی مفادات کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کیے۔ کچھ لوگوں نے اسے ایک حقیقت پسندانہ قدم کے طور پر دیکھا تاکہ سوڈان کی بین الاقوامی ساکھ بہتر ہو سکے، جبکہ دوسروں نے اسے مسلم دنیا میں غیر ملکی مداخلت کے خلاف مزاحمت کے مقصد سے غداری کے طور پر دیکھا۔ آنے والے سالوں میں، سوڈان کی داخلی سیاسی صورتحال بھی بدل گئی، اور حکومتی رہنماؤں نے سابقہ اتحادوں کی قربانی دے کر ملک کی ساکھ کو بحال کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے کی کوششیں کیں۔


2010 کی دہائی تک، سوڈان نے القاعدہ کی کسی بھی باقیات کے ساتھ تقریباً تمام تعلقات ختم کر لیے تھے اور عالمی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے ساتھ خود کو زیادہ قریب سے جوڑ لیا تھا۔ حکومت نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ انضمام کے لیے اقدامات کیے، اور وہ دور جب سوڈان اسلامی تحریکوں کو حمایت فراہم کرتا تھا، ختم ہوتا گیا۔ 2020 میں، سوڈان نے رسمی طور پر اپنے آپ کو امریکہ کی دہشت گردی کے معاون ممالک کی فہرست سے ہٹا لیا، جو ایک بڑا سفارتی کارنامہ تھا، لیکن یہ القاعدہ جیسے گروہوں کی حمایت کے خاتمے کی بھی علامت تھی۔


بہت سے لوگوں کے لیے سوڈان کا یہ سفر، ایک اسلامی مزاحمتی حامی ملک سے عالمی انسداد دہشت گردی کا شریک کار بننے تک، ایک بڑا تبدیلی کا عمل ہے، جو مسلم دنیا میں وسیع تر رجحانات کی عکاسی کرتا ہے، جہاں ممالک کو خود مختاری، اقتصادی ترقی اور نظریاتی وابستگیوں کے درمیان مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔

Comments

Popular Posts