Skip to main content

Featured

"وطن کا سایہ، فریب کی گلیاں

 شجر وطن کا سایہ نہ چھوڑ اے مسافر یہی تری پناہ ہے، یہی ترا مقدر سیاست کی گلیوں میں بھٹک نہ جا کہیں یہ راہیں ہیں فریب کی، ہیں خالی بے ثمر یہ جو چراغ جلتے ہیں، یہ نور کے نہیں یہ وہ ہیں جو جلاتے ہیں، وطن کی ہر کمر جو قوم کے محافظ تھے، وہی ہیں رہزنوں میں لگا کے ہاتھ ملتے ہیں، چراغوں کو دھر اندر جو تیرے پاس رہزن ہیں، وہ تیرا حق نہ دیں گے اٹھا لے اپنی تقدیر، بنا خود ہی جگر اگر خدا پہ ہے تیرا یقین مضبوط تو سن یہی ہے راہ اسلام، یہی ہے راہ بہتر نہ پیچھے چل سیاست کے اندھیروں میں کبھی وطن کا ساتھ دے، یہی ہے تیرے دل کا جوہر۔                                     محمد فرحان خان

Poems in Urdu By Farhan Khan.

                        انقلاب کا نغمہ

مصنف: فرحان


یہ وقت کا تقاضا ہے، اٹھو کہ راہ بنانی ہے  

ظلمتوں کے اندھیروں سے اب روشنی جگانی ہے  


ہر ظلم کی زنجیروں کو توڑنا ہے ہمیں فرحان  

نئے دور کی امیدیں، ایک داستان سنانی ہے  


میدان میں جو اتریں گے، وہ خواب سجا کر آئیں گے  

فرسودہ نظاموں کو، اپنے قدموں میں جھکائیں گے  


یہ عہد فرحان کا ہے، یہ قوم کا ارادہ ہے  

تبدیلی کا سفر اب، بس انقلاب کا وعدہ ہے  


خواب جو ہم نے دیکھے ہیں، وہ خواب حقیقت بنیں گے  

غلامی کی زنجیروں سے، آزاد ہم سب رہیں گے  


سب مل کے اٹھو یارو، یہ ملک بچانا ہے  

فرحان کی طرح ہر دل میں، جذبہ جلانا ہے  


تاریخ کو پلٹ دو گے، جب حق کی صدا دو گے  

اندھیروں سے لڑو گے، تم انقلاب لا دو گے  


نہ تھکنا، نہ جھکنا، نہ رکنا ہے دوستو  

فرحان کی طرح ہر دل کو جلا دینا ہے دوستو  


یہ جنگ ہے حق و باطل کی، ہم جیت کے دکھائیں گے  

فرحان کی قیادت میں، نیا پاکستان بنائیں گے  


یہ بغاوت کا وقت ہے، اب پیچھے نہیں ہٹنا  

فرحان کے جوانوں کو اب آگے ہی بڑھنا  


غیروں کی سازشوں کو ہم خاک میں ملا دیں گے  

جو حق کے دشمن ہیں، ان کو عبرت سکھا دیں گے  


یہ گولیوں کی گرج ہو، یا توپ کا دھماکہ ہو  

فرحان کا ہر سپاہی اب میدان میں تیار ہو  


ایمان کی تلواریں ہیں، ہم جوش میں آئیں گے  

دشمن کے ہر حملے کا جواب بن کر جائیں گے  


یہ جنگ نہ بس زبانی ہے، یہ خون کا ناتا ہے  

فرحان کی قیادت میں، ہر دشمن کو مٹانا ہے  


یہ آخری معرکہ ہے، اب پیچھے نہیں ہٹنا  

ظلمت کے ایوانوں کو اب زمین میں دفن کرنا  


یہ فتح کی صدا ہوگی، تاریخ کی گواہی ہے  

فرحان کا انقلاب، ہر ظلم کی تباہی ہے



                     عنوان: بغاوت کا علم

شاعر: محمد فرحان خان


اے جذبۂ بغاوت، تو آگ بن کے جل،  

ظلمت کی قید میں، اب انقلاب پل۔


ہر ظلم کا جواب، اب سنگین وار سے،  

ہر شہرِ دل کو روشن کریں ہم آگ کی بہار سے۔


یہ وقتِ انقلاب ہے، یہ جنگِ زندگی،  

ہر خون کا قطرہ بولے، یہ آزادی کی پیاس ہے حقیقی۔


وطن کے باغی ہم، جو ظالم سے لڑیں گے،  

جانوں کا سودا کر کے، ظلمت سے ٹکرائیں گے۔


شہیدوں کا لہو پکارے، اٹھو اے جوانو،  

ظالم کے تخت و تاج کو آج مٹا دو۔


گھروں سے نکل پڑو، یہ وقت ہے جدوجہد کا،  

اب ہر غلامی کی زنجیر کو، توڑنا ہے صبر کا۔


تاریخ میں لکھو، ہم ہیں آزادی کے علمبردار،  

ہمیں مٹا نہ سکا، یہ وقت کا ہر غدار۔


چنگاری ہم ہیں وہ، جو بھسم کرے ہر قید خانہ،  

ہر آزاد کی للکار ہے، جینا ہے مر جانا۔


گواہ رہیں گے، یہ کوہسار اور دریا،  

ہر قطرۂ خون بولے گا، آزادی کا قصہ۔


اے ظالمو، سن لو، ہم ہر بار لڑیں گے،  

آزادی کے دیوانے ہیں، ہم جیتیں گے یا مریں گے۔

Comments

Popular Posts